کالم

ڈاکٹر فرخ سلیم کے دس سوال

ستمبر 16, 2019 3 min

ڈاکٹر فرخ سلیم کے دس سوال

Reading Time: 3 minutes

ڈاکٹر فرخ سلیم گذشتہ دور میں ہمیں معیشت کے حوالے سے بری خبریں سنانے پر مامور تھے۔ ان کی بھرپور کاوشوں سے صادق اور امین حکومت کا نزول ہوا۔ کچھ دیر کے لئے ان کی نوکری تبدیل بھی ہوئی لیکن وہی بات ہوئی کہ :
خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
(عیسیؑ کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے، وہ جب واپس آئے گا گدھے کا گدھا ہی رہے گا)۔
خر عیسیؑ والی بات اپنی جگہ لیکن فرخ صاحب پہ "سر منڈاتے ہی اولے پڑے” بھی صادق آیا کہ حکومتی ترجمان بنتے ہی شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں سوالوں کا جواب دینے پہنچ گئے ۔۔۔۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ موصوف نے پھر سے معیشت پر قلم زنی شروع کی ہے۔ موجودہ حکومت سے دس سوال کئے ہیں۔ احباب کی دلچسپی کے لئے ان کا ترجمہ شئیر کر رہا ہوں۔



پہلا سوال : کفایت شعاری کرنے والی کسی حکومت کا بجٹ خسارہ کیسے چالیس سالوں میں بلندترین سطح پر ہو سکتا ہے؟
کیا غلط ہوا ہے؟ کیسے ہمارا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد ہو گیا ہے؟ کیسے حکومت کے اخراجات اس کی آمدن سے 3.4 ٹریلین روپے زیادہ ہیں؟ اگر یہ معاشی عدم توازن نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کا بجٹ خسارہ اس کے جی ڈی پی کا 5فیصد اور بھارت کا 3.4فیصد ہے۔

دوسرا سوال: کیسے قرض لینے کی ایک مخالف حکومت میں ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی شرح 104فیصد تک پہنچ گئی؟ یاد رہے کہ ستمبر 2018، پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے ایک ماہ بعد، ہمارا ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی شرح 80فیصد تھی۔ صرف نو مہینوں میں ایسی کیا آفت آ گئی ہے کہ کہ یہ شرح 104فیصد پہ چلی گئی۔ یہ آخر کس قسم کی تبدیلی ہے؟
:
تیسرا سوال: اداراتی اصلاحات کی ایک داعی حکومت آخر کیسے سرکاری اداروں کا قرض 21ٹریلین روپے تک بڑھا سکتی ہے؟ آخر کیا غلط ہوا ہے؟ یاد دہانی کے لئے، ستمبر 2018 میں، پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے ایک ماہ بعد، سرکاری اداروں کا قرض 1.359ٹریلین روپے تھا جو جی ڈی پی کا 3.5فیصد بنتا تھا۔ ایسی کیا آفت آئی کہ سرکاری اداروں کا قرض 2.1ٹریلین روپے تک چلا گیا جو جی ڈی پی کا 5.5فیصد بنتا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ سرکاری اداروں میں ہمیشہ سے زیادہ وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔
:
چوتھا سوال: قرضوں کی اتنی مخالفت کرنی والی حکومت میں آخر کیسے پاکستان کے کل قرضوں کو 40ٹریلین روپے تک بڑھا سکتی ہے؟ یاد رہے کہ پیپلزپارٹی نے پاکستان کے کل قرضوں کو پانچ سال کی مدت (2008-2013) میں 6ٹریلین روپے سے 16ٹریلین روپے تک پہنچایا تھا۔ مسلم لیگ نون نے پاکستان کے کل قرضوں کو پانچ سالوں (2013-2018) میں 16ٹریلین روپے سے 30ٹریلین روپے تک پہنچایا تھا۔ پی ٹی آئی نے ایسا کیا کر دیا کہ محض ایک سال میں ہی پاکستان کے کل قرضے کو 30ٹریلین روپے سے 40ٹریلین روپے تک پہنچا دیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے کیسے محض ایک سال میں 10ٹریلین کے قرض کا اضافہ کیا ہے؟ پیش نظر رہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کو 10ٹریلین روپے کا قرض چڑھانے میں پورے پانچ سال لگے تھے؟
:
پانچواں سوال: کیسے ہمارا 28بلین ڈالر کا برامدی ہدف 20فیصد کی زبردست شرح سے چھوٹا۔ کون ایسے ہدف طے کرتا ہے اور کیا غلط ہوا؟
:
چھٹا سوال: پٹرولیم مصنوعات کی مقدار میں 25فیصد کمی کیوں آئی ہے؟
:
ساتواں سوال: سیمنٹ کے شعبے کی پیداواری صلاحیت کا استعمال 50فیصد کم کیوں ہو گیا ہے؟
:
آٹھواں سوال: گاڑیوں کی فروخت 50فیصد کیسے گر گئی ہے؟
:
نواں سوال: نجی شعبے کے قرضے گذشتہ دو ماہ میں کیسے منفی 85بلین روپے تک گر گئے ہیں؟
:
دسواں سوال: افراط زر کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کی کیا پالیسی ہے؟
:
وزیراعظم عمران خان "آہنی عزم” کے حامل ہیں لیکن اس "آہنی عزم” اور ان کی ٹیم کی صلاحیت میں ہزاروں میل کا فاصلہ ہے۔ اس مصنوعی ذہانت کے دور میں یہ سب الگورتھم کی بات ہے: "آہنی عزم” جمع "صلاحیت” برابر ہے "ڈیلیوری” کے۔ یہ بات واضح ہے کہ عزم بہت ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ بغیر صلاحیت کے کوئی ڈیلیوری نہیں ہو سکتی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے