متفرق خبریں

قبائلی علاقوں میں فوجی قانون کیوں؟

نومبر 15, 2019 3 min

قبائلی علاقوں میں فوجی قانون کیوں؟

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت یا کسی محکمے کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گیارہ حراستی مراکز کو قانون کے مطابق چلائے جانے کا تاثر دیا جارہا ہے، معلوم نہیں عملی طور پر ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔

رپورٹ: ج ع

سپریم کورٹ نے سابقہ قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے اور حراستی مراکز سے متعلق قوانین میں استعمال کیے گئے الفاظ پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ قوانین میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کو پڑھتے ہوئے جج صاحبان مسکرائے بغیر نہ رہے سکے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے فوج کی تعیناتی اور اختیارات کے سنہ 2019 کے قانون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا یہ لکھا گیا ہے اب فوج قانون کے مطابق کام کرے گی، کیا فوج گذشتہ دس سال سے قانون کے مطابق امور کی انجام دہی نہیں کر رہی تھی؟۔

پانچ رکنی لارجر بنچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے مسکراتے ہوئے سوال اٹھایا کہ قانون میں لکھا گیا ہے اب شرپسند عناصر ملک سے وفادار نہیں ہیں، تو کیا یہ شرپسند عناصر پہلے ملک سے وفادار تھے۔ اس پر کمرہ عدالت میں بیٹھے افراد کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

سپریم کورٹ گذشتہ سماعتوں پر بھی ایکشن ان ایڈ اینڈ سول پاور کے تحت کے پی کے مخصوص علاقوں میں فوج کی تعیناتی اور حراستی مراکز کے قیام سے متعلق بنائے گئے قوانین پر سوال اٹھا چکی ہے۔ کیا یہ قوانین کسی دباﺅ یا عجلت میں جاری کیے گئے ؟یہ سوال بھی اہم ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون میں شرپسند عناصر کیلئے انگریزی کا جو لفظ استعمال کیا گیا اس کا معنی کچھ اور نکلتا ہے، شرپسند عناصر کیلئے جس انگریزی لفظ کا انتخاب کیا گیا اس کے بلیک لاءڈکشنری میں معنی کافر، غلط کار، دہریے کے ہیں، شاید حکومت آرڈیننس کے ذریعے نئی انگریزی ایجاد کر رہی ہو ۔ اس پر چیف جسٹس برجستہ بولے شرپسند عناصر کیلئے جس لفظ کو چنا گیا یہ بھی اہم ہے لیکن پہلے ریگولیشن کی طرف آتے ہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انو ر منصور خان نے حراستی مراکز کی سہولیات بارے قوانین پڑھنے شروع کیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا قواعد کے تحت حراستی مراکز میں قید افرادکی اہل خانہ سے ملاقات کرانے کی شق بھی موجود ہے لیکن ہمیں زیر حراست فراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی ؟ اٹارنی جنرل بولے زیر حراست افراد کے اہلخانہ کو تفصیلات بتائی جاتی ہے ،زیر حراست افراد کی تفصیلات عام نہیں کرسکتے ،زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہلخانہ کو لکھ سکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا لوگ میڈیا میں کیوں شکایت کرتے ہیں انھیں اُنکے پیاروں کا علم نہیں کیا یہ جھوٹ ہوتا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا میڈیا میں آ نے والی تمام شکایات غلط نہیں ،بعض لاپتہ افراد کا اداروں کو بھی علم نہیں، بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فی الحال اہلخانہ سے نہیں ملواسکتے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد غیر ریاستی عناصر کا لفظ سامنے آیا، غیر ریاستی عناصر کو کوئی ملک بھی تحفظ نہیں دیتا، امریکہ نے غیر ریاستی عناصر کے لیے گوانتاناموبے جیل بنائی، کیا اداروں کے پاس زیر حراست افراد کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اداروں کے پاس تمام تفصیلات اور شواہد موجود ہیں، ایک حراستی مرکز میں پہلے مہینے 78 افراد کو رکھا گیا، 2 سال بعد تمام افراد کو بحالی کے بعد رہا کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا ہے۔کیس کی سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کردی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے