متفرق خبریں

زرداری کے ’بہادر بچے‘ پر امریکی پابندیاں

Reading Time: 3 minutes محکمہ خزانہ کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق فہرست میں شامل کیے گئے ان 18 افراد نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

دسمبر 11, 2019 3 min

زرداری کے ’بہادر بچے‘ پر امریکی پابندیاں

Reading Time: 3 minutes

امریکہ نے کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں کے بدنام زمانہ کردار راؤ انواز کو انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر دی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر محکمے کے بیرونی ممالک کے اثاثہ جات کو کنٹرول کرنے کے دفتر نے 18 غیر ملکی افراد پر پابندی عائد کی۔

محکمے کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق دیگر ممالک میں برما، لیبیا، سلواکیا، کانگو اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔

محکمہ خزانہ کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق فہرست میں شامل کیے گئے ان 18 افراد نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

محکمہ خزانہ کے ڈپٹی سیکریٹری جسٹن جی کے مطابق اس اقدام میں ان افراد پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جنھوں نے ان افراد کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا جو انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے اور ان میں صحافی، اپوزیشن ممبران اور وکلا شامل تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار خان نے اطلاعات کے مطابق کراچی ضلع ملیر میں پولیس کے سینئیر سپریٹینڈنٹ پولیس کی حیثیت سے بہت سے جعلی پولیس مقابلے کیے جن میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ 190 پولیس مقابلوں میں ملوث تھے جن میں نقیب اللہ محسود سمیت 400 افراد ہلاک ہوئے۔

پریس ریلیز کے مطابق مبینہ طور پر راؤ انوار نے پولیس کے اس نیٹ ورک کی سربراہی اور جرائم میں ملوث ٹھگوں کی مدد کی جو بھتہ خوری، زمین پر قبضہ کرنے، منشیات اور قتل میں مدد کرتے تھے۔

یاد رہے کہ جنوری 2018 میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور نقیب اللہ کا تعلق شدت پسند تنظیموں داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔ تاہم عدالت نے نقیب اللہ محسود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان پر دائر تمام مقدمات خارج کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

رواں برس مارچ میں کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر افراد پر نقیب اللہ محسود کے قتل کی فرد جرم عائد کی تھی جبکہ راؤ انوار سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

راؤ انوار کو پیپلز پارٹی کے سابق صدر آصف علی زرداری نے بہادر بچہ قرار دیا تھا۔ راؤ انواز سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد کئی ماہ تک غیر مرئی قوتوں کی آشیرباد سے روپوش بھی رہے۔

سابق پولیس افسر پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ پولیس مقابلے غیر مرئی قوتوں کی جانب سے حوالے کیے گئے افراد کو قتل کرنے کے لیے کرتے تھے اور انہوں نے کراچی میں لینڈ مافیا کے لیے غریب لوگوں سے زمینیں خالی کرانے کے لیے بھی درجنوں بے گناہوں کو قتل کیا۔

کراچی پولیس کے راؤ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔سنہ 1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے۔

سنہ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار سرگرم ہوئے۔ اس کے بعد دس برسوں کے دوران وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی تعینات رہے۔

راؤ انوار نے سنہ 2016 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد پولیس مقابلے کر چکے ہیں اگر انھیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے۔ ان مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے